یا یه کهیں که یه اختلافات ، خود حرکت عمومی کے پیکر میں موجود اختلافات کے ساتھ مستند هیں۔مانند تیز رفتاری اور سست رفتاری میں اختلاف اور جهت میں اختلاف وغیره ۔
پھر کهتا هے: مشینی کائنات کے تصور سے جو نتائج لے سکتے هیں یه هیں که کائنات کے امور کا محور اصل علیت هے نه اصل غائیت ، یعنی هم محتاج نهیں هیں که حوادث کے حدوث اور طبیعی امور کے جاری هونے کے لئے کوئی غایت فرض کریں اور کائنات کے امور میں کسی حکمت کے قائل هو جائیں کیونکه ہم طبیعت کی مشین کے پهیوں کی گردش کو اصل علیت کی بنا پر توجیه کرتے هیں۔[۱۱۳]
یهاں پر چند بحثیں هیں: پهلی یه که آیا کائنات کو میکانیزم اور مشینی فرض کرنا جدید فلسفه اور حکمت کی نگاه سے ایک قطعی اور یقینی امر هے یا اس کے مخالف بھی هیں؟ ضروری هے که هم کهیں که یه نه صرف ایک یقینی امر نهیں هے بلکه اس فلسفه کی شکست یقینی هے۔ماده پرست ابتداء میں اس فلسفے سے چپک گئے تھے لیکن بعد میں اسے چھوڑنے پر مجبور هو گئے ۔ یورپ کے سائنسدانوں اور فلاسفرز کے درمیان خصوصا حیاتیات کی نگاه سے یه مطلب تقریبا یقینی هے که کائنات کو میکانیکی طور پر توجیه اور تفسیر نهیں کر سکتےهیں۔ آج کل کوئی بھی یه دعوا نهیں کرتا هے که “ماده اور حرکت کو مجھے دیں میں کائنات بناؤنگا” ۔ لائبنیز [۱۱۴] ان فلاسفرز میں سے ایک هے جو بهت جلد اس نتیجے تک پهنچا که کائنات اتنی آسانی سے نهیں بنی هے بُعد اور حرکت کے علاوه اس کائنات میں ایک اور حقیقت بھی هےاگرچه وه خود چاهتے تھے که کائنات کو ڈینامیزم (Dinamism) کی بنیاد پر توجیه کرکے اس مشکل کو حل کرائے لیکن حل نهیں کر سکے۔
س صورت میں سوال منتقل هوتا هے ان اختلافات کی طرف جو خود حرکت عمومی میں پیدا هوئے هیں۔
امیل بوٹرو [۱۱۵]بھی ان میں سے ایک هے ۔ اور اس نے یه دعوا کیا که کائنات کے موجودات ایک جیسے نهیں هیں اور انهیں ایک دوسرے سے متصل سلسله فرض نهیں کرسکتے۔ جمادت ایک حکم رکھتے هیں اور نباتات دوسرا حکم اور حیوانات ان دونوں میں سے هر ایک سے متفاوت هیں ، انسان بھی اپنے لیے کچھ خصوصیات رکھتا هے۔ اگرچه اس نے بھی اپنی فکر کی بنیاد قانون علیت کی نفی یا کم از کم ضرورت علّی و معلولی کی نفی پر رکھی هے اور کوئی قابل ذکر نظریه پیش نهیں کیا هے۔ برگسون بھی میکانیزم کو کائنات کےنوعیتی حالات، خاص کر زندگی میں در پیش مسائل کے حل پر قادر نهیں سمجھتا هے۔
تیسری بحث یه هے که فلسفه میکانیزم اسلامی فلسفے کے ساتھ کس نقطے پر اتحاد رکھتا هے؟ آیا جیساکه عموماً یورپی اور فروغی کی مانند یورپی افکار سے متأثر لوگ یه گمان کرتے هیں که میکانیزم علت غائیه اور قوه و فعل کی نفی کا لازمه هے یهاں تک که خالق کی نفی کا لازمه هے اور میکانیزم کاانکارقانون علیت، کا قانون یا کم از کم اصل ضرورت علّی و معلولی کے انکار کا لازمه هے؟ همارے خیال میں اس طرح کا طرز تفکر بنیاد سے هی غلط هے۔ میکانیزم کے نظریه کا سروکار صورت نوعیه سےهے اور یهی“اشیاء کی ذات اور ماهیت “کے ساتھ ارتباط پیدا کرتا هے۔
اب همیں یه دیکھنا هے که صور نوعیه کے بارے میں قدماء کے نظریه کی بنیاد کیا تھی۔ آیا اشیاء کے بارے میں حاصل هونے والی معلومات کے بعد بھی صور نوعیه کے اعتراف کی ضرورت هے یا نهیں؟ میکانیزم ، مادے کے اجزاء کےباهمی روابط کو ایک مشین کے اجزاء کے روابط کی مانند جاننے کے سوا کچھ نهیں هے۔ ایک جماد اسی طرح ایک نبات اور ایک حیوان یهاں تک که ایک انسان میکانیزم کی نگاه سے ایک مشین هے اور بس۔ اب ہمیں یه دیکھنا هے که جو لوگ مدعی تھے اور هیں که جماد اور نبات کا اختلاف (بلکه جماد کے دو انواع میں اختلاف یا نبات کے دو انواع میں اختلاف) یا نبات، حیوان اور انسان میں پایا جانے والا اختلاف دو مشینوں کے درمیان پائے جانے والے اختلاف سے زیاده هے ، کس بنیاد پر حکم کرتے تھے؟صور نوعیه کے بارے میں قدماء کے افکار کا آغاز یهاں سے هوتا هے ان کا کهنا تھا که کائنات کے مادے کو تشکیل دینے والے تمام اجرام اور اجسام (ماده اولی یا ثانوی اس اختلاف کی جهت سے جو اس کے بارے میں هے) جسمیت ، جرمیت ، لمبائی، گهرائی اور چوڑائی رکھنے میں ایک جیسے هیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نهیں هے۔
کیونکه حرکت کی پهلی اختلافات جیساکه تیز اور آهسته اور جهت میں اختلاف همیشه ایک متغیر اور متبدل امر هے اور ان کی حرکت عمومی کی یکسانیت کے ساتھ تفسیر اور توجیه میں ناگزیر “اتفاق”کی طرف هاتھ بڑھانا پڑے گا۔ وهی اتفاق جو علت اور معلول کے قانون اور بالآخره علم کی نفی کرتا هے۔
دوسرے لفظوں میں یه جهت ان تمام کی وجه مشترک هے لیکن اشیاءدوسری جهت سے یعنی ماده اور پیکر میں وحدت اور اشتراک رکھنے کے باوجود آثار اور خصوصیات کے لحاظ سے مختلف اور متبائن هیں۔ قهراً یه سوال پیدا هوتا هے که اگر ایک طبیعت حاکم هوتی تو کائنات میں مکمل طور پر یکسانیت اور مماثلت برقرار هوتی اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نه هوتا ، تغایر اور تخالف نه هوتا یهاں تک که حرکت اور تغییر کے لئے بھی کوئی جگه باقی نه رهتی۔ اسی طرح مختلف عناصر اور مرکبات وجود میں نه آتے۔
سوال یه هے که آثار، شکلوں ، رنگوں ، خصوصیتوں اور فعالیتوں میں یه اختلاف کهاں سے پیدا هوتا هے؟ قهراً اس کا کوئی سرچشمه هوگا۔ یعنی ایک طاقت یا چند طاقتیں مادے (جسم اور جرم جو سب میں مساوی اور مشترک طور پر موجود هے) پر حکومت کرتی هیں۔ مادے پر حکومت کرنے والی طاقت تمام مواد میں یکساں عمل نهیں کرتی کیونکه اگر طاقت تمام مواد میں یکساں عمل کرتی تو (جس طرح ماده یکساں هے) اختلاف اور تنوع وجود میں نه آتا۔ پس مختلف طاقتیں مادے پر حکومت کرتی هیں۔ وه طاقتیں کیا هیں؟ جوهر هیں یا عرض؟ دوسرے لفظوں میں وه طاقتیں کس طرح کی حالت رکھتی هیں؟ یهاں پر ابتداء میں صرف دو طرح کے فرض قابل تصور هیں:
۱ – وه چیز جو بنام “قوه” وجود رکھتی هے اور آثار کا سرچشمه هے ایک ایسا موجود هے جو سوفیصد ماده اور جسم سے مستقل اور خارج هے لیکن جسم کے همراه هے۔دوسرے لفظوں میں اس طرح فرض کریں که ایک ایسا عنصر هے جو مادے کے عناصر کے ساتھ اختلاف رکھتا هے لیکن مادے کے همراه اور اس کے بغل میں وجود رکھتا هے۔ وهی هے جس نے مادے کو یکسانیت اور مشابهت کی حالت سے خارج کیا هے۔
یه نظریه بهت ساری دلائل کے ذریعے رد هوا هے خواه اس عنصر کو مافوق الطبیعی اراده جانیں یا کوئی اور چیز ۔ یه نظریه تمام اشیاء اور طبیعی موجودات میں ڈیکارٹ کی ثنویت کی طرح ایک قسم کی ثنویت هے ۔
۲ – جو چیز بنام “قوه” وجود رکھتی هے اور آثار کا سرچشمه هے مادے کے ساتھ متحد هے نه که اس سے خارج اور صرف اس کے همراه هے۔ یه نظریه بھی اپنی جگه دو طرح سے قابل بیان هے:
الف) قوه عرض ہے اور مادے کے ذریعے قائم هے۔ قهراً مادے کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت کی منزلت پر هے۔
اس کے علاوه خارج میں کچھ ایسی چیزیں هیں جو کسی صورت ماده، قوت اور توانائی اور بلآخره حرکت کی جگه نهیں لے سکتی جیسے وحدت ، امکان، وجود ، نسبت، عدد وغیره ۔
ب) قوه جوهر هے اور مادے کے ساتھ متحد هے[۱۱۶] ماده اور قوه کے درمیان نقص اور کمال کی نسبت هے۔ یعنی ماده اپنی ذات میں ایک کمالی وجود پیدا کرتا هے اور اس جوهری کمال کی وجه سے کچھ مخصوص آثار کا سرچشمه بن جاتا هے۔
ان سب کے باوجود مقاله نمبر ۱ میں بیان کئے گئے نکتے سے بھی غافل نهیں رهنا چاهئے که یه اشکالات طبیعی علوم کی پابند نهیں هیں بلکه مذکوره نظریه کے بارے میں استعمال هونے والی فلسفی تعبیر کی طرف متوجه هیں۔
مادی اور جوهری کمالات مختلف صورتوں میں پیدا هوتے هیں اسی وجه سے مختلف شرائط اور امکانات کے حساب سے ماده مختلف جوهری صورتیں قبول کرتا هے۔
قوه کے عرض هونے کا فرض یقیناً باطل هے کیونکه اس فرض کے ساتھ وه چیز جسے هم قوه نام دیتے هیں اور چاهتے هیں که آثار اور خصوصیات کی اس کے ساتھ توجیه کریں آثار اور خواص کے ردیف میں آتا هے جوخود ایک اور قوه کی توجیه کا محتاج هے۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی کهے که “قوه مادے کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت هے جو خود مادے سے پیدا هوگئی هے “ تو اس کے جواب میں کها جائیگا که ماده اس حکم کے ساتھ جو تمام جگهوں میں یکساں هے ، اگر قوه کا سرچشمه هوتا تو تمام جگهوں پر یکساں عمل کرتا اس کے علاوه هم اس جهت سے قوه کے وجود پر یقین کرنے پر مجبور هیں که ماده صلاحیت نهیں رکھتا هے که مختلف اور متنوع آثار کا سرچشمه شمار هو ، پس کیسے هم یکساں مادے کو مختلف قوتوں کے لئے سرچشمه قرار دے سکتے هیں؟ لیکن یه که کوئی اور قوه ان مفروضه قوتوں کا سرچشمه هو تو خود اس قوه کی طرف نقل کلام کریں گے که وه کیا چیز هے؟ آیا وه بھی ایک خصوصیت هے جو مادے کو دی گئی هے یا کوئی اور چیز ؟ فرض کریں هم اسے خصوصیت فرض کریں تو پھر وهی سوال پیدا هوتا هے ۔
یهاں سے معلوم هوتا هے که قوه کو ماده کی ذات کے مرتبے میں اوراس سےمتحد جاننا ضروری هے یعنی قوه اور ماده مجموعاً ایک جوهری اکائی کو وجود میں لاتے هیں ۔ قوه اور مادے کے درمیان نسبت، متعین اور لامتعین، فصل اور جنس کی طرح هے۔ یعنی ماده کبھی اس قوه کی شکل میں ظاهر هوتا هے اور کبھی اس قوه کی شکل میں اور هر قوه، ماده اور قوه سے مرکب شئ کی ماهیت کو تبدیل کرتا هے اور اسی جهت سے ان قوتوں کا “صور نوعیه”یا “صور منوعه” نام رکھتے هیں اور کهتے هیں که ان قوتوں کی تعداد میں مختلف ماهیات وجود رکھتی هیں۔
پس فلاسفرز اور حکماء کا جماتات، نباتات اور حیوانات کو مختلف انواع میں تقسیم کرنا اور ان کے درمیان ذاتی اور جوهری اختلاف کے قائل هونے کی علت ، ماده کے علاوه قوه کا کشف هونا هے اور یه که قوه کو نه مادے سے جدا اور مستقل عنصر کی شکل میں قبول کیا جا سکتا هے اور نه مادے کے لئے عرض اور خصوصیت کی شکل میں بلکه ضروری هے صرف اس کو اس چیز کی شکل میں جو مادے کی ذات کے مرتبے میں راه پیدا کرتی هے ، دوسرے لفظوں میں ایک ایسی چیز کی شکل میں که مادے کی ذات جس کے ذریعے متحول اور متکامل هو جاتی هے ، قبول کریں۔اور چونکه قوتیں مختلف اور گوناگون هیں ماده هر قوه سے مل کر ایک خاص قسم کو تشکیل
جیساکه فیزکس کے مطابق جهاں، حرکت کے مساوی هے ایک ایسا حکم هے جو اپنے موضوع کی حدود میں قابل اجراء هے اور اپنے موضوع سے باهر کسی بھی چیز کے بارے میں هاں اورنا کی صورتم میں نظر نهیں دے سکتا۔
دیتا هے ۔اسی طرح جسمانی ماده جن عناصر کی شکل اختیار کرتا هے اپنے جوهر کو تبدیل کرتا هے اور عناصر جب مرکب کی شکل اختیار کرتے هیں تو کوئی اور چیز بن جاتے هیں۔ ایسا نهیں هے که ماده کسی اور چیز کے ساتھ جمع هوا هو اسی طرح یه بھی صحیح نهیں هے که ماده نے اپنی ماهیت اور حقیقت کو محفوظ رکھنے کے ساتھ صرف ایک اضافی خاصیت حاصل کی هو۔
یهاں پر بے جا نهیں هے که امیل بوترو جو که انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کےسائنسدانوں میں سے هے، کا نظریه جس کی ایک طرح سے قدماء کے نظریے کی طرف بازگشت هےاگرچه کچھ جهات سے ناقص هے، بیان کریں۔مرحوم فروغی کتاب سیرحکمت در اروپا کی تیسری جلد[۱۱۷] میں اس کی ایک کتاب “امکان قوانین طبیعت” کا نام لیتا هے ، جس میں وه مدعی هے که “علیت کا قانون یقینی نهیں بلکه ایک احتمالی قانون هے”۔ هم فی الحال اس کی گفتگو کے اس حصے سے جو همارے لئے مورد قبول نهیں هے، بحث نهیں کریں گے، جو مطلب همارا مورد توجه هے وه یه هے که وه کهتاهے:
“کائنات کے تمام موجودات یکساں حالت میں نهیں هیں اور ان کے امور ایک روش پر جاری نهیں هوتے هیں۔ لهذا انهیں ایک دوسرے سے متصل سلسله فرض نهیں کیا جاسکتا۔ جمادات کوئی حکم رکھتے هیں ، نباتات کوئی اور حکم ، حیوانات ان دونوں سے متفاوت هیں اور انسان بھی اپنے لئے کچھ خاص خصوصیات رکھتا هے ۔ چنانچه قدیم الایام سے اس نکتے تک رسائی حاصل هو گئی تھی که نبات میں جماد سے ایک اضافی حقیقت هے جسے “نفس نباتی”کها جاتا هے جو حیات کا سبب بنتی هے ۔ جتناچاهیں مادی احکام اور خصوصیات یعنی طبیعیاتی اور کیمیائی قوانین اس پر جاری کریں سرانجام ایک ایسی چیز باقی ره جاتی هے جس پر جمادی احکام کا تسلط نهیں هے، اسی طرح حیوان میں ایک ایسی چیز هے(قدماء کے بقول نفس حیوانی) جو مجرد حیات پر اضافی هے اور حیاتی قوانین اس پر تسلط نهیں رکھتے۔اسی طرح بدون شک انسان کے شعور اور حواس میں بھی کوئی ایسی شئ هے جس کی بنا پر حیوانی خصوصیات اس پر تسلط نهیں رکھتی۔ وجود کے ان مراحل میں سے هر ایک کے قوانین دوسرے مراحل کے ساتھ فرق کرتے هیں؛ چنانچه روح شناسی کے قوانین کو طبیعیاتی اور کیمیائی قواعد سے اخذ نهیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح نفسیات کے اصول بھی روح شناسی کے اصول سے مباینت رکھتے هیں۔اس بات کی تائید میں کها جا سکتا هے که موجودات کا اجزاء سے مرکب هونے یعنی هر فرد ایک کل هے جو کچھ اجزاء کے مجموعے سے بنایا گیا هے، اسکے باوجود ان کے مجموعے اور
لیکن جب بھی اسی قضیے کو فلسفه میں وارد کرنا چاهیں کیونکه اس کا موضوع مطلق موجود هے تو ضروری هے کهیں که هر مادی موجود حرکت رکھتا هے ۔
کل کی خصوصیات اجزاء کی خصوصیات کےمساوی نهیں هیں بلکه اس سے زیاده خصوصیات کی حامل هیں۔ مثلا ًایک درخت یا پودا اس کے باوجود که جمادی اجزاء سے مرکب هے کچھ ایسی خصوصیات بھی رکھتے هیں جو جمادی اجزاء کی خصوصیات پر اضافه هوتی هیں جن کا تعلق حقیقت میں نفس نباتی کے آثار سے هے۔ حیوان اور انسان کی حالت بھی اسی طرح هے۔کچھ موجودات کی خصوصیات معلوم هونے سے کچھ دوسرے موجودات کی خصوصیات کو قیاس کے ذریعے معلوم نهیں کیا جا سکتا لهذا هم مجبور هیں هر مورد میں ایک خاص تجربه اور مشاهده سے استفاده کریں…۔”پھر کهتا هے:
“جب هم موجودات کی تحولی اور ارتقائی سلسلے کو مدنظر رکھتے هیں تو دیکھتے هیں که موجودات کے کئی گروه هیں۔ هر گروه پهلے گروه کی خصوصیات کے علاوه کچھ اضافی خصوصیات بھی رکھتا هے۔ پس نهیں کهه سکتے هیں که موجودات کا ارتقائی سلسله صرف تحول هے بلکه موجودات کے هر طبقے میں ایک جدید امر تخلیق هوا هے۔دوسرے لفظوں میں صرف ایک توانائی کا دوسری توانائی میں تبدیل هونا نهیں هے بلکه ایک نئی توانائی بھی ایجاد هوتی هے اور خلاقیت کی قوت استعمال هوتی هے جس کی وجه سے نئی پیدا هونے والی توانائی کے لئے قدیم توانائی علت بنتی هے…۔”[۱۱۸]
فلسفی مسئله”صور نوعیه” دو ارکان پر مشتمل هے: ایک سائنسی اور دوسرا فلسفی، البته خود مسئله فلسفی هے؛ یعنی ایک قسم کا فلسفی استنباط هے اور مسائل فلسفه کو غیر فلسفه سےشخیص دینے والے معیار- اصول فلسفه کی جلد اول میں تشریح کی گئی هے- کے مطابق یه مسئله، فلسفی هے۔ لیکن جن ارکان پر اس مسئلے کی بنیاد رکھی گئی هےان میں سے ایک علمی هے یعنی سائنسی حدود سے مربوط هے اور دوسرا رکن خود فلسفه کی حدود سے مربوط هے۔
اس کا سائنسی رکن ، موجودات کے آثار اور خصوصیات کا مختلف هونے کے بارے میں سائنسی مشاهده هے۔ فیزکس جو که بے جان مادے کی قوتوں سے بحث کرتا هے ایک طرح سے گواهی دیتا هے، کیمسٹری عناصر کے ترکیبی میلان کو مدنظر رکھتے هوئے اسی طرح حیاتیات ، حیاتی آثار کی بنیاد پر(مخصوصا مادے میں حیاتی طاقت،حکومت اور تصرف کی اصالت اور بالاخص جانداروں میں پیشرفت کے حوالے سے موجود ارتقائی قانون)مختلف طریقوں سے اس مدعا پر گواهی دیتے هیں۔ هم جس قدر اپنے مطالعات کو اس کے بارے میں تقویت دیں اس نظریے کے بارے میں همارے استدلال کا ماده قوی هو جائیگا۔
پس جیساکه واضح هے غلطی اور لغزش مادی فلسفه اور اس فلسفه کے قائلین کی غلط فلسفی تعبیر سے مربوط هے۔ طبیعی علوم اور علمی بحث سے اس کا کوئی تعلق نهیں هے۔
مورد تحقیق مسئله کا فلسفی رکن ، آثار اور خواص اسی طرح مختلف قوتوں اور توانائیوں کے موجود هونے سے حکایت کرتا هے۔ یه قوتیں اور توانائیاں نه مادے سے جدا اور مستقل هیں اورنه هی مادے کے مقابلے میں ایک عنصر یا مکمل طور پر طبیعت سے خارج کوئی وجود رکھ سکتی هیں اور نه مادے کے لئے ایک عرض اور خاصیت کی شکل میں بلکه ایک حقیقت کا جوهری کمال اور عالی نمونه کی صورت میں جسم اور بُعد کے چهرے کا ایک رخ اور جهت هیں اس جهت سے تمام اشیاء یکساں اور مماثل هیں ۔ اس چهرے کا دوسرا رخ قوه عقل اور فلسفی استدلال کےذریعے کشف کیا جا سکتا هے البته اس کی حقیقت کو تشخیص نهیں دے سکتے هیں(حکماء تقریبا اس نظر پر متحد هیں که صور نوعیه کی ماهیت تشخیص نهیں دی جا سکتی اس وجه سے اشیاء کی ماهیت کا کشف کرنا ممکن نهیں هے صرف اتنا معلوم هے که ماهیتیں مختلف هیں)، اتنا جانتے هیں که اشیاء کے چهرے کا یه رخ دوسرے سے مختلف هے اور ان دونوں کا مجموعه ایک جوهر کو وجود میں لاتا هے۔اس ضمن میں اس مطلب کا جاننا بھی ضروری هے که حکماء کی نگاه میں هر شئ کا تشخص اور وحدت کا معیار اس کی صورت نوعیه هے یعنی هر چیز کا “وہ” هونا صورت نوعیه سے وابسته هے ۔ ماده خود بخود ایک معین اور مشخص موجود کی شکل میں معرض وجود میں نهیں آسکتا ۔
اگر هم ایٹمیزمAtomism کے فرضیے کو بھی ضمیمه کریں پھر صورت نوعیه کے انکار کو مطرح کریں تو مطلب ایک عجیب صورت اختیار کرتا هے : اولاً قضیه یا حمل کا مفهوم –جس طرح متن میں آیا هے- مکمل طور پر بدل جاتا هے ۔ یعنی هم ایک قضیے میں بھی ایک مشخص اکائی پیدا نهیں کرسکیں گے که محمول کی جس کی طرف نسبت دے سکیں۔ بنابراین،“انسان کھانا کھاتا هے” کا مفهوم یه هوگا که ماده کے غیر قابل تجزیه اجزاء کا مجموعه جسے لوگ “انسان” کهتے هیں کھانا کھانے کی خصوصیت رکھتا هے۔ بلکه حرکت عمومی (البته حرکت مکانی)کے فرضیه کی بناپر جو چیز بھی هے وه حرکت هے جس کی رو سے “انسان کھانا کھاتا هے” کا مفهوم یه گا که هم حرکات اور لهروں کے مجموعے کو “انسان” نام دیتے هیں پھر اس مجموعے کی بعض حرکات اور لهروں کو موضوع فرض کرتے هوئے باقی حرکات اور لهروں کو اس مجموعے کی طرف نسبت دیتے هیں ۔
بهر حال حمل دو چیزوں کے درمیان میں حقیقی وحدت کا ذریعه یا دوسرے لفظوں میں دو مفاهیم کے درمیان وجودی اتحاد کا معنا نهیں هو سکتا هے۔ اس مطلب کی توضیح متن میں دی گئی هے۔
اب همیں حرکت عمومی کی کس طرح وضاحت کرنی چاهئے؟
جیساکه مقاله نمبر ۵ میں اشاره هوا اور اس کے بعد بھی بیان هوگا که مادی دنیا میں بهت سارے جوهری انواع موجود هیں اعراض اور خصوصیات ان کے وجودات کے جلوے اور ان کے موجود هونے کی حکایت کرتے هیں۔
دوسری طرف سے حس اور تجربه گواهی دیتے ہیں کہ جوهری صورتیں ایک دوسرے میں تبدیل هونے کی قابلیت رکھتی هیں اوراس مقاله کے ابتداء میں بھی هم نے یه ثابت کیا هے که اس طرح کی تبدیلی امکان اور فعلیت کی بساط میں وسعت اور بلاخره حرکت کےتحقق کا لازمه هے۔اس کے علاوه حس کی گواهی کے مطابق کائنات میں دوسری حرکتیں مانند مکانی حرکتیں موجود هیں۔
ان چند مقدموں سے یه نتیجه لے سکتے هیں که:
کائنات کے جوهری موجودات شخصی وجود کے حساب سےبغیر اس کے که ایک دوسرے سے جدا اور الگ هوں ایک وجودی ترکیب رکھتے هیں جس کی وساطت سے یه تمام ایک وسیع و عریض اکائی کو تشکیل دیتے هیں جو بالذات متحرک هیں اور خواص اور اعراض بھی جو ان کے وجود سے باهر نهیں هیں اس کے وجود کے طفیل تبدیلی کی حالت میں هوتے هوئے ایک بڑے قافلے کی مانند همیشه ارتقاء کی راه پر گامزن اور مقصد نهائی کی طرف رواں دواں هیں۔
گذشته بیان سے مندرجه ذیل نتیجے لے سکتے هیں:
۱ – طبیعی انواع کی ذوات اور جوهر میں حرکت هے۔
۲ – خارجی انواع کے اعراض اور خواص بھی عنصری اور مرکب انواع کی مانند ساکن نظر آنے کے ساتھ اپنے جوهر کی پیروی کرتے هوئے متحر ک هیں۔